آتشِ ہجر میں خود کی ہی بنی رہتی ہے
میں نے بڑھ کر اسے سینے سے سجی رہتی ہے
میں نے ہر روز نیا ایک تماشا کر کے
اپنی دنیا کی تمنا کی نمی رہتی ہے
ساری دنیا کو بتایا ہے کہ انسان ہوں میں
ایک میلا سا زمانے میں سجی رہتی ہے
اپنے حصے کی بہاروں کو لٹا کر تجھ پر
تیرے دامن کو شراروں سے بچی رہتی ہے
ایک دن دیکھنا لفظوں میں جھلک آئے گی
تم نے جس خون کو گردش میں بہی رہتی ہے
صاف لفظوں میں کرو عرضِ محبت وشمہ
بات کو یونہی مری جان گھمی رہتی ہے