آتی تو ہے بہار مگر، اس طرح نہیں
کھلتے ہیں لالہ زار مگر، اس طرح نہیں
یادوں کے آ ج بھی ہیں دریچے کھلے ہوئے
دل بھی ہے بیقرار مگر، اسطرح نہیں
تکتے تو آج بھی ہیں وہ چلمن کی اوٹ سے
ہوتا تو ہے دیدار مگر، اسطرح نہیں
کوچے میں ان کے بھیڑ ہے منگتوں کی آج بھی
بٹتا ہے حسن یار مگر، اسطرح نہیں
رکھے ہوئے ہیں برسوں سے سب بام و در کھلے
رہتا ہے انتظار مگر ، اسطرح نہیں
لوگ آج بھی تو ساقی و واعظ کے روپ میں
ملتے ہیں بیشمار مگر ، اسطرح نہیں
زریں ان کے جھوٹے وعدوں پہ اب تلک
کرتا ہے اعتبار مگر ، اسطرح نہیں