اک شمع عقیدت کی جلا کیوں نہیں دیتے
آتی ہوں یہاں روز دعا کیوں نہیں دیتے
سو جاتی ہوں میں اوڑھ کے جب لمبی جدائی
تم ہجر کی راتوں سے جگا کیوں نہیں دیتے
جو دل کے خزینے میں مرے راز چھپا ہے
اس رازِ محبت کا صلہ کیوں نہیں دیتے
ہے دھوپ کی شدت کا بھی احساس اگرچہ
چڑیوں کو چہکنے کی صدا کیوں نہیں دیتے
بارود کی بارش ہے کہیں خون کی ہولی
غدار ہیں جو ان کو سزا کیوں نہیں دیتے
تم پیار کے رنگوں کو زمانے سے چھپا کر
ہاتھوں پہ مرے مہندی لگا کیوں نہیں دیتے
وہ میرے مقدر میں نہیں آج تو وشمہ
ہاتھوں سے لکیروں کو مٹا کیوں نہیں دیتے