آج تو کھُلُ کے ملاقات ذرا ہونے دو
جو نہ کہہ پاۓ وہی بات ذرا ہونے دو
ابر برسے تو فضا اور نکھر جاتی ہے
کھلُ کے اشکوں کی یہ برسات ذرا ہونے دو
آ زمائش ہے اگر تجھ کو ہماری مقصوُد
تلخ کچھ اور بھی حالات ذرا ہونے دو
یہ حقیقت ہے نہیں خواب ، یقیں کیسے ہو ؟
کچھ طویل اور یہ لمحات ذرا ہونے دو
دردِ دِل کیا ہے یہ خود ناصح سمجھ جاۓ گا
عِشق میں اُس کو بھی شہ مات ذرا ہونے دو
دِن کے ہنگامے بھُلا دیتے ہیں سب اندیشے
درد جاگ اٹھیں گے سب رات ذرا ہونے دو
جاگ اٹھیں گی مرے دل کی امنگیں ساری
کم مرے دل سے یہ صدمات ذرا ہونے دو
کیا غلط ہے کیا صحیح صاف نظر آئے گا
سرد یہ گرمئی جذبات ذرا ہونے دو