آج اُس بام کے دیئے مدہم سے لگتے ہیں
شاید ہواؤں کے غرور منظم سے لگتے ہیں
تجھے جس کی دید شدت سے بلاتی ہے
مجھے تو یہ نظارے مبہم سے لگتے ہیں
یہ جہاں بھی جیسے آلودہ دامن ہو مگر
کہیں کہیں تو احساس مردم سے لگتے ہیں
میں اس ضماد کو عمر بھر ترس گیا ہوں
تجھے کس نے کہا خیال مرہم سے لگتے ہیں
کیا اِس سُر تال کو کوئی پازیب ملی گی
جس کے تناسب ہمیشہ ردھم سے لگتے ہیں
نہ جانے اس حال کا آگے کیا حال ہو
اب تک تو سنتوشؔ حوصلے پُردم سے لگتے ہیں