اک پل کو ہی میری بات مان لیتا تو آج ایسا نہ ہوتا
اپنا بنانے سے پہلے گر اُسے جان لیتا تو آج ایسا نہ ہوتا
اب جو روتے ہو خود کو جلا کے رات دن
وہ آگ ہے اگر پہچان لیتا تو آج ایسا نہ ہوتا
کتنی بار کہا کہ انجان لوگوں سے نہ ملا کر
دوستی کرنی تھی تو اُس سے بیان لیتا تو آج ایسا نہ ہوتا
کشتی کو کنارا مل ہی جاتا میرے دل اگر طوفان سے پہلے
لہروں کو جان لیتا تو آج ایسا نہ ہوتا
وہ بے وفا ہے تُو کس کس کی زبان کو روکے کا نہا ل
پاگل محبت سے پہلے تُو اُسی سے زبان لیتا تو آج ایسا نہ ہوتا
جیسے ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی نہا ل
ویسے ہی ہر پھول کو تُو کومل نہ جانتا تو آج ایسا نہ ہوتا
نہ خُدا سے گلا ، نہ قسمت سے شکایت ، نہ و ہ بے وفا
نہا ل خود کو ہی اک شخص عام مان لیتا تو آج ایسا نہ ہوتا