آج تیرے شہر میں ہم اجنبی جانے گئے
مدتوں کی قربتیں اور دل کے افسانے گئے
ہر برس پھولوں کے تحفے بھیجتے رہے جنہیں
آج ان کے تیر میری ہی طرف تانے گئے
آج پھر ٹوٹی ہیں میرے دل کی نازک کھڑکیاں
ناز تھا جن پہ ہمیں وہ دوست پہچانے گئے
ایک مدت سے ہمارے دل کے جو مہماں رہے
آج میرے پاس سے وہ بن کے بیگانے گئے
نہ وہ منظر، نہ وہ نغمہ، نہ وہ ساز دل ربا
ساقیا جانے سے تیرے مے و میخانے گئے
ہم نے دل کی چاہتوں سے آپ کہ مانا مگر
ہم اگر مانے گئے تو غیر ہی مانے گئے
کیا صلہ خالد وفا کا تو نے پایا ہے یہاں
آج بھی ہم بے وفا کے نام سے جانے گئے