آج میرے درد کا وہ جائزہ لیتے رہے
جینے کو کیا ہے بچا وہ جائزہ لیتے رہے
موت بھی دیتی رہی دستک مسیحا دیکھتے
خوب میرے جسم کا وہ جائزہ لیتے رہے
نفرتوں کا پانی تھا بنیادوں میں پھیلا ہوا
یہ مکاں کیسے گرا وہ جائزہ لیتے رہے
ظلم کے ہر وار پر میں دیکھتا تھا آسماں
کیا کرے گا اب خدا وہ جائزہ لیتے رہے
زندگی کی مشکلوں میں اس قدر صابر رہا
اس بلا کے صبر کا وہ جائزہ لیتے رہے