آج پھر تیرے موضوع پہ بات ہوگئی ہے
آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات ہو گئی ہے
نکلے ہیں سکوں کی تلاش میں
راستے پہ پھر تم سے ملاقات ہو گئی ہے
اب کیسے جییں بن تیرے
ہم پہ سوار جو تیری ذات ہو گئی ہے
جیتے ہیں کچھ اس ادا سے بشی
جیسے ہماری تو وفات ہو گئی ہے