آج پھر گرمئی جذبات نے بدنام کیا
مجھ کو پھر تاروں بھری رات نے بدنام کیا
یوں تو کردار کی تصویر تھا جیون میرا
اور تنہائی کے نغمات نے بدنام کیا
شیخ پابند مشیت تھا مگر رات اسے
ساقی اور جام طلسمات نے بدنام کیا
جام پیتے ہیں دل و جاں کی تسلی کے لئے
درد والوں میں اسی بات نے بدنام کیا
تختہ دار پہ لٹکے ہوئے انساں نے کہا
مجھ کو دلبر کی شکایات نے بدنام کیا
پہلے معصوم سمجھتے تھے زمانے والے
وہ بلاناغہ ملاقات نے بدنام کیا
سب ہی یہ جانتے ہیں عشق سے ناواقف ہوں
اور اغزال کی سوغات نے بدنام کیا
جعفری ہم نے تو یہ بھید چھپا رکھا تھا
مجھ کو آشوب کی برسات نے بدنام کیا