آج کل دل شاد نہیں رہتا
مجھے پھر کچھ یاد نہیں رہتا
کردار فضیلت کا بھی کچھ کہیے
شخص کبھی نام نہاد نہیں رہتا
ابکہ تھوڑی رنجش چھائی ہوئی ہے
چہرہ غم دیر تک آباد نہیں رہتا
تیری جانے کے بعد کیا ہوا؟
اپنی سوچوں میں تضاد نہیں رہتا
جس کا لطف تھا وہ لے گیا
ابکہ آنکھوں میں وہ ماد نہیں رہتا
اُلجھ اُلجھ کر سمٹتے تھے سنتوشؔ
اب گھٹاؤں میں ایسا تاب نہیں رہتا