آج ہم سے خفا کیوں میرے حضور ہو
کوئی شکایت ہے یا عادت سے مجبور ہو
میرے خیالوں میں تم میرے پاس ہوتے ہو
مگر حقیقت میں مجھ سے بہت دور ہو
تمہارے پیار میں ہم تو ہوئے رسوا
میرے پیار کی بدولت تم مشہور ہو
اب تم سے مراسم نہ سہی تو کیا
پھر بھی میرے دل کا تم سرور ہو
سنا ہے پچھتا رہے ہو مجھے کھو کر
اب اصغر کی طرح رہتے بڑے رنجور ہو