آج یوں دل نے ان کا نام لیا
جیسے گرتے ہوئے کو تھام لیا
ہم نے بے انتہا وفا کر کے
بے وفاؤں سے انتقام لیا
مجھ کو کہنا تھا تم سے کیا کیا کچھ
تم نے بھی کس نظر سے کام لیا
بات پوری نہ کر سکے ان سے
جب لیا عہد ناتمام لیا
جیسے پہلے کبھی ملی ہی نہ تھیں
ان نگاہوں نے یوں سلام لیا
واہ ذکر حبیب کیا کہنا
آہ کس بے وفا کا نام لیا
تھا تو ان سے گلہ رضاؔ لیکن
اپنے ہی دل سے انتقام لیا