آخری خط کو مرے اُس نے جلایا بھی نہیں
ہے محبّت یا عداوت یہ بتایا بھی نہیں
جانے کیوں آج وہ گھبرایا ہوا لگتا ہے
آئینہ میں نے ابھی اس کو دکھایا بھی نہیں
ہاے اندازِ محبّت کوئی دیکھے اُس کا
ساتھ چھوڑا بھی نہیں ساتھ نبھایا بھی نہیں
جانے کس بات سے چہرہ تھا پریشان اس کا
جبکہ محفل میں مرا نام تو آیا بھی نہیں
یوں تو کہنےکو ملاقات ہوئی تھی لیکن
حال پوچھا بھی نہیں حال بتایا بھی نہیں
بس اسی بات کا افسوس ہے وشمہ اُس نے
جاتے جاتے مجھے سینے سے لگایا بھی نہیں