آدھی رات کو کھلی کھڑکی رہی
دیکھو کتنی وہ مجبور لڑکی رہی
وہ بھی کہاں سکون نہ پائے گا
جس کی یاد میں یہ جلتی رہی
پتھر پوجنے سے کیا ملا اس کو
لیکن یہ کہ آس بہلتی رہی
کب ملے گی اظہار کو آزادی
ہر بار یہ کہہ کر روتی رہی
ہم تو محور کے ہی محاسب تھے
وہ فقط اپنی آہیں گنتی رہی
اُس نے لاکھ بار مرنا چاہا لیکن
سنتوش پھر امید کروٹ بدلتی رہی