آزمانے کو دل نہیں کرتا
گھر جلانے کو دل نہیں کرتا
شام افسردہ میرے چہرے پر
"مسکرانے کو دل نہیں کرتا"
ساری دنیا منانے آئی ہے
اب بہانے کو دل نہیں کرتا
میرا ہرجائی میرا مجرم ہے
ساتھ جانے کو دل نہیں کرتا
جب سے شعروں میں تیرا ذکر نہیں
کچھ سنانے کو دل نہیں کرتا
کیا میں کھولوں پٹاری آنکھوں کی
جب نشانے کو دل نہیں کرتا
اک دریچہ ہے وا مگر وشمہ
آنے جانے کو دل نہیں کرتا