وادی ء ہجر سے خاموش گزر جاتے ہیں
چاہنے والے ایسے کام بھی کر جاتے ہیں
تیری بے اعتنائی سے یہی تو جانا ہے
سحر سے روٹھ کر یہ تارے کدھر جاتے ہیں
جو ابھی عشق کے اسرار سے ناواقف ہوں
وہ فقط سختی ء حالات سے ڈر جاتے ہیں
پیار کے باغ کی یہ داستاں ہے ازلوں سے
پھول کھلتے ہیں اور چپ چاپ بکھر جاتے ہیں
آپ تو چار دن کے زکر سے گریزاں ہو
لوگ تو عمر بسر کر کے مکر جاتے ہیں
یہ بھی سنتے ہیں آجکل کی حسیں راتوں میں
تیری آنکھوں میں سمندر سے ٹھہر جاتے ہیں
آؤ گے ایک دن اتنا تو یقیں ہے مجھکو
پرندے لوٹ کے ہر شام کو گھر جاتے ہیں
چاندنی رات کے لمحوں میں کھو کے جانے کیوں
آس کی سیج پہ جگنو سے بکھر جاتے ہیں