آسماں کے تیور ہیں بدلے بدلے لگتا ہے آسماں برسے گا
مہک اُٹھے گی گلشنِ رونق تیرے گھر گلاب کھلے گا
رات بھر رہے گا شرم سے آسماں کا چاند جھکا جھکا
زمین پہ کل چاند سے جب میرا چاند ملے گا
تتلیاں ہوں گی قطاروں میں مُنتظر تیرے طواف کی
کیا خوب رنگ اُسکے شہر تیری حَنا کا جمے گا
فضائیں صبح و لنور ہی وُضو کا لبادہ اُڑ رکھیں گی
ایسا جھومیں گا خوشی میں بادل کہ پھر نہ تھمیں گا
رہیں گے شاعر بھی کشمکش میں لکھیں تو کیا لکھیں ہم
شَب گُزر جائے گی سوچوں میں مگر عنوان نہ ملے گا
وقتِ رُخصت نہ ہاتھ ہلانا دیکھ کر افسردہ نگاہوں سے
دریا موجھ میں راہ کر بھی نفیس موجھوں سے نہ ملے گا