آسودگئ جاں کے تو رستے ہزار تھے
لیکن انا کے پاؤں میں زنجیر تھی تری
میں ریزہ ریزہ خود کو چنتی مگر مجھے
مطلوب اس خرابے سے تمعیر تھی تری
اے عشق_ بےنیاز ! گریزاں میں یوں رہی
دراصل روز_ وصل تو تحقیر تھی تری
میں جس کی رفعتوں کی قصدہ نگار تھی
اس کوچہء خیال میں تصویر تھی تری