آغاز محبت میں ہی سب لٹا بیٹھے تھے
آج اس کی محفل میں خالی ہاتھ بیٹھے تھے
بک رہی تھی اس کی محفل میں آج محبت
کیا دام لگاتے ہم کہ
ہم تو سب ہار کے بیٹھے تھے
خالی نگاہوں سے بوجھل دل سے دیکھ رہے تھے اس کو
جو ہمارا تھا آج اس کے دعوے دار بے شمار بیٹھے تھے
سب نچھاور کر دیا تھا جس کی ایک آواز پر
اس کی آواز سننے کو آج کان ترسے ہوے تھے
بے بسی پر اپنی رونا چاہتے تھے ہم
مگر جانے کیوں اپنے آنسو روک کے بیٹھے تھے
بے لوث محبت کی تلاش ہمیں وہاں تھی
جہاں سب محبت کے خریدار بیٹھے تھے
انھی میں ایک وہ بھی تھا
جس کی محبت میں ہم گرفتار تھے
کیا کہتے کس کو فریاد کرتے
قسمت کو دے کر الزام اپنی جگہ پر آ بیٹھے تھے