ہاتھ میں چراغ لیۓ وہ سورج کو ڈھونڈنے ہیں نکلے
سو دیکھۓ آج آفتاب ادھر کو نکلے یا ادھر کو نکلے
شب بھر رہا اندھیرا رہے سیاں منتظر جانےکب ہو گا سویرا
رات گزری وچار میں اپنی کہ صبح آفتاب کدھر کو جا نکلے
ظالمانہ انداز انکے یہ کہہ رہے ہیں ہم سے سج دھج کے
تاک جھانک کرنےبنکے چند آفتاب نکڑ پہ گلی کی جا نکلے
حیراں ہیں ہم ہوے قرباں مداح میرے سیاں کی سادگی پے
نہیں مداوا انکی خواہش شوق کا جدھر کو وہ جا نکلے
یوں تو ہے ما ہتاب گھر میں پر دیکھنے کی تاب رکھتےنہیں
سو سیاں میرے چندا کو ڈھونڈنے کوٹھے پے جا نکلے
مد مقابل ہے آج اپنےکوئ سج دھج کے گوہم بھی کم نہیں
آج دیکھیں گے ہم بھی انکے یہ ارماں کدھر کو نکلے