آندھی ہے بڑی تیز دیا رکھ سنبھال کر
بجھنے نہ دے اسے کوئی ایسا کمال کر
محفل میں سناتے ہو کیوں قصہ درد تم
ملتا ہے کیا کسی کی یوں عزت اچھال کر
اس شہر کے لوگوں میں رہا دل نہیں باقی
دلجوئی کون کرے گا بس خود ہی ملال کر
آنگن میں میرے گرتے ہیں اب روز ہی پتھر
میں کاٹوں گا کسی روز شجر یہ نکال کر
صادق ہر التجا پہ یہی مشورہ ملا
مل جائے گا جواب ذرا خود سے سوال کر