آندھیاں کام کریں اپنا بُجھائیں -جائیں
Poet: By: ابنِ مفتی سید ایاز مفتی, houstonمجھ کو ساحل کی کہانی نہ سنائیں – جائیں
پہلے طوفان سے کشتی کو بچائیں -جائین
میں دیا ہوں تو مرا کام فقط جلنا ہے
آندھیاں کام کریں اپنا بُجھائیں -جائیں
سر کے بل آئیں گے ہم لوگ ترے کوچے میں
ہم کو دکھلائی اگر اور ادائیں – جائیں
واعظو سچ کی بھی تعلیم ضرور ی ہے بہت
میکدے ساتھ مرے آپ بھی آئیں -جائیں
جان و دل ، چین سکوں سب تو لُٹایا میں نے
اب مجھے اور نہ للہ ستائیں ۔ جائیں
” ایک سجدہ” ہی جو کافی نہیں پیشانی کو
دام پھر آپ تو سجدوں کے بڑھائیں – جائیں
میری تعریف پہ وہ منہ سا ، بنا کر بولے
اسقدر آپ نہ اب ہم کو بنائیں – جائیں
انکی آنکھوں کے مقابل میں سُبو لائے ہو
اپنی اوقات خدارا نہ دکھائیں – جائیں
دل کسی طور عبادت کی طرف جاتا نہیں
سارے معبود یہ مندر سے اٹھاِئیں – جائیں
لیجئے ہوگیا برباد یہ سید زادہ
اور کیا چاہتے ہیں آپ بتائیں – جائیں
میری تربت کے مقدر میں تو ویرانی ہے
آپ بھی خاک پہ کچھ خاک اُڑائیں – جائیں
حسن کا زعم جو دیکھا تو یہ بولے مفتی
ہم نے دیکھا ہیں بہت آپ سے جائیں -جائیں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






