شام سے پہلے ملیں آنکھ بھی تمنائی ہوئی
میرے ہی گھر میں میری خوب پزیرائی ہوئی
وہ مکیں ہیں میری خواہشوں کے دروبام پے یوں
جیسے جلوہ افروز میرے کمرے میں تنہائی ہوئی
کر کے روح آلودہ میری وہ غافل ہیں یوں مجھ سے
کہ جیسے آج رات ہی ان سے شناسائی ہوئی
ان کے آنچل میں یوں الجھے کہ گنوایا سب کچھ
کہ میرے احباب میں میری خوب رسوائی ہوئی
لب سلا کے لائے ہیں ہم محفل کیف و طرب میں آج
جیسے ناں پینے کی برسوں سے قسم کھائی ہوئی