آنکھ میں اشکوں کی بارات لیۓ پھرتا ہوں
اپنے اندر کئ صدمات لیۓ پھرتا ہوں
زخم سے چور بدن, چاک یہ سینہ میرا
دوستوں کی میں عنایات لیۓ پھرتا ہوں
جن کی وقعت نہ رہی ہے صفِ یاراں میں کبھی
میں وہ مجروح سے جذبات لیۓ پھرتا ہوں
جتنے بھی زخم دیۓ مجھ کو مرے اپنوں
آج بھی ان کے نشانات لیۓ پھرتا ہوں
اس لیۓ بھی تو کسی کو میں نہیں بھاتا ہوں
میں جو ہر کام میں اوقات لیۓ پھرتا ہوں
اس نے اک بار جو جی بھر کے دیا تھا دیدار
عمر بھر وہ ہی ملاقات لیۓ پھرتا ہوں
مجھ کو ہر در سے نۓ زخم ملے ہیں باقرؔ
عشق کے بعد یہ خیرات لیۓ پھرتا ہوں