آنکھوں سے مدعا بیاں ہو گیا
سفر زندگی کا آساں ہو گیا
میری ہستی کا تھا جو دشمن کبھی
اچانک وہ پھر سے مہرباں ہو گیا
وہ لمحہ تھا جو توں نے گزارا کہیں
طبعیت پہ وہ میری گراں ہو گیا
اک قطرہ تھا دل کے نہاں خانے میں
وہ اشک پھر آنکھوں سے رواں ہو گیا
محو حسرت ہی رہے آئینے کو دیکھتے
کھلا پھول جو چہرے پہ خزاں ہو گیا