آنکھوں کی اپنی حد ، دل گھر جدا بناتی ہے
پھر سانسوں کی گھُٹن کیوں صدا بناتی ہے
یوں تو ہم کبھی سلجھنے کے قابل نہ رہے
دیکھیں کب فضیلت کی یہ مہانتا آتی ہے
خود سے بچھڑے تو تسکین کہاں آئی
اک تیری ہی سوچ بہت خفا کرتی ہے
حسرتوں کی کبھی موت نہیں ہوتی کیوں
لیکن دل لگی کبھی بڑی خطا کرتی ہے
قضاؤں کے قرض بھی اتار چکے ہیں
مگر جزا کی ادھار کب وفا کرتی ہے
میری مرضی نے ایک ماہتاب دیکھا
تیری بندگی روز نیا خدا بناتی ہے
میرے غم کا گذار کوئی نہیں تھا سنتوشؔ
یہ حقیر دنیا تو بے ساختہ چلتی ہے