آنکھوں کے راستے مرے دل میں اتر گیا
ہم چاہتے ہیں عشق کی دنیا سے بھر گیا
دیکھا ہے خون آنکھ کی پتلی میں اب مگر
پلکوں کے آس پاس تو قاتل بھی ڈر گیا
ضربِ نگاہ وقت سے بدلا ہے آسماں
لیکن زمیں کے راستے زیرِ اثڑ گیا
اس سے کہیں بھی نام تمہارا نہیں ملا
ہم ہر ورق کتاب وفا کا بکھر گیا
سنگت میں جن کے نیند بھی قربان ہو گئی
وہ خواب میری آنکھ کے ساتھ کدھر گیا
کچھ بھی رہا نہ آپ کے جانے کی دیر تھی
منظر تمہارے ساتھ ہی دل سے گزر گیا
ایسا بھی کیا کمال ہے وشمہ جہان میں
اک آدمی کے واسطے یہ دل بکھر گیا