اس کائناتِ رنگ میں
دنیائے سنگ میں
ہم قید تو نہیں تھے مگر
اس کے باوجود
آزادیوں نے لطفِ رہائی نہیں دیا
چاہا بہت کہ اپنے ہی اندر کبھی کہیں
اتریں،
اتر کے خود کو تلاشیں کچھ اس طرح
ہاتھوں میں اپنا کھوج ہو
دل میں وصالِ آگ
پیروں میں آگہی کی بلندی
راستے
لیکن بدن سے روح کی ان منزلوں کے بیچ
وہ رات تھی کہ کچھ بھی سُجھائی نہیں دیا
کوئی وجود تھا کہ جو طاری تھا ذات پر
آنکھوں کے پار چاند دکھائی نہیں دیا