تیری آنکھیں کمال کرتی ہیں
میرا غم لازوال کرتی ہیں
ڈوب جاتا ہوں جو ان میں کبھی
کیسے کیسے سوال کرتی ہیں
دیکھ لیں گر یہ آسماں کی طرف
بدر کو بھی ہلال کرتی ہیں
ہم پہ تیرِ ستم چلا کر یہ
ظاہر اپنا جلال کرتی ہیں
ریزہ ریزہ ہیں بکھرے راہوں میں
ہمیں کیوں یہ پامال کرتی ہیں
ہوتی ہیں غمزدہ یہ جیسے ہی
ہمیں بھی یہ پُر ملال کرتی ہیں
شب کو دے کر یہ تیرگی ثاقب
دِن کو رُو بہ زوال کرتی ہیں