کسی کی یاد میں اکثر برستی ہیں میری آنکھیں
وہ چہرہ جاں فزا جس کو ترستی ہیں میری آنکھیں
میںتنہا زیست کی راہوں میں چلنے کا نہیں قائل
وہ میرا ہم سفر ہو جس کو تکتی ہیں میری آنکھیں
تو کوئ لعل و گوہر ہے کہ تیری خاطر میرے ہمدم
اصکوں کے سمندر میں اترتی ہیں میری آنکھیں
کبھی اس دیدہ نم کو بھی آکر چوم لے ظالم
تیری خاطر تو مدت سے سنورتی ہیں میری آنکھیں
بہت ہی خوبصورت ہے خیال کا منظر
تصوف کے مراحل سے گزرتی میری آنکھیں
انہیں پلکوں کے سائے میں بٹھالیں جی تو چاہتا ہے
مگر صام و سحر قیصرچھلکتی ہیں میری آنکھیں