اور تو سب کچھ ٹھیک ہے لیکن
آپ کا سرد رویہ دیکھ کے
آنکھیں گیلی ہو جاتی ہیں
ہجر کا چولہ پہنا جب سے
دکھ کے باب کو کھولا تب سے
چند سطریں ہی پڑھ کے اب تو
آنکھیں گیلی ہو جاتی ہیں
دھیرے دھیرے ہم نے جانا
خواب نگر میں کبھی نہ جانا
تنہائ جب مل جائے تو
آنکھیں گیلی ہو جاتی ہیں
دل میں جانے کیا ہے سب کے
کیسا موسم آیا اب کے
سبز رُتیں بھی اکژ اب تو
زرد اور پیلی ہو جاتی ہیں
آنکھیں گیلی ہو جاتی ہیں
دل کو جب بوجھل پاتے ہین
جھیل کنارے ہم جاتے ہیں
یادوں کی اُس جھیل میں اب تو
کنکر پھینک کے خوش ہوتے ہیں
جھیل سی آنکھیں دُکھ سے اب تو
گہری نیلی ہو جاتی ہیں
آنکھیں گیلی ہو جاتی ہیں