ہوا کو آوارہ کہنے والوں
کبھی تو سوچو، کبھی تو لکھو
ہوائیں کیوں اپنی منزل سے بھٹک گئی ہیں
نہ ان کی آنکھوں میں خواب کوئی
نہ خواب میں انتظار کوئی
نہ ان کے سارے سفر میں صبح یقین کوئی
نہ ان کی اپنی زمین کوئی، نہ آسماں پہ کوئی ستارہ
نہ کوئی موسم، نہ خوشبو کا کوئی بھی استعارہ
نہ روشنی کی لکیر کوئی، نہ ان کا اپنا سفیر کوئی
جو ان کے دکھ پہ کتاب لکھے
مسافرت کا عذاب لکھے
ہوا کو آوارہ کہنے والوں
کبھی تو سوچو