آپ کو کیا معلوم نہیں
Poet: wasim ahmad moghal By: wasim ahmad moghal, lahoreآپ لگے پھر بات بنانے آپ کو کیا معلوم نہیں
ہم تو وہ ہی ہیں دوست پرانے آپ کو کیا معلوم نہیں
میں نے دیکھا میں نے چاہا یہ سب میری تقصیریں ہیں
آپ لگے ہیں کیوں شرمانے آپ کو کیا معلوم نہیں
کون آتا ہے چاند کی صورت میری شبِ تنہائی میں
میٹھا میٹھا درد جگانے آپ کو کیا معلوم نہیں
کس کی خوشبو بادِ صبا کے دوش پہ مجھ تک آتی ہے
میری مشامِ جاں مہکانے آپ کو کیا معلوم نہیں
کوئی تو ہے جو یادوں کی چلمن میں چھپ کے بیٹھا ہے
میری آنکھوں کو ترسانے آپ کو کیا معلوم نہیں
روز آتے ہیں چاند اور تارے میرے گھر کے آنگن میں
پیار بھرے کچھ گیت سنانے آپ کو کیا معلوم نہیں
جگنو بن کر آپ کی یادیں ٹم ٹم کرتی رہتی ہیں
میری راتوں کو چمکانے آپ کو کیامعلوم نہیں
آج تلک سینے سے لگا کر اُن کے سنبھال کے رکھا ہے
بخشے تھے جو غم کے خزانے آپ کو کیا معلوم نہیں
پھول سمجھ کر تتلیاں ان پہ آج بھی بیٹھنے آتی ہیں
گرچہ ہیں یہ زخم پرانے آپ کو کیا معلوم نہیں
میرا دل تو ٹوٹ گیا تھا آپ کی پہلی شفقت سے
آپ آئے پھر دل کو دُکھانے آپ کیا معلوم نہیں
اس چہرے کی روشن کرنیں لے کے شبِ تنہائی میں
ہم بیٹھے ہیں شعر بنانے آپ کو کیا معلوم نہیں
کون آتا ہے چپکے چپکے رات کو میرے خوابوں میں
سوئے ہوئے جذبوں کو جگانے آپ کو کیا معلوم نہیں
دیدہءِ بے خواب کو کس کے خوابوں نے بے خواب کیا
آپ آئے پھر خواب دکھانے آپ کو کیا معلوم نہیں
تصویر بنا میں آپ ہی کی تصویریں دیکھتا رہتا ہوں
شیشہءِ دل میں ان کو سجانے آپ کیا معلوم نہیں
یاد ہیں مجھ کو آج تلک سب آپ کی باتیں حالانکہ
بیت گئے کتنے ہی زمانے آپ کو کیا معلوم نہیں
کوئی تو ہے جو شہر میں یارو مستیاں بانٹتا پھرتا ہے
بند پڑے ہیں سب میخانے آپ کو کیا معلوم نہیں
شعلہ شعلہ آگ لگی ہے قطرہ قطرہ شبنم سے
آپ لگے پھر اشک بہانے آپ کو کیا معلوم نہیں
کوئی تو ہے جو میرے دل میں اکثر جھانکتا رہتا ہے
اِس دل میں طوفان اُٹھانے آپ کو کیا معلوم نہیں
پاس ہمارےکچھ بھی نہیں ہے اب تو چشمِ نم کے سوا
کیسے بکھرے خواب سُہانے آپ کو کیا معلوم نہیں
کس لئے آخر آپ نے ہم سے ملنا جلنا چھوڑ دیا
لوگ کہیں گے اب افسانے آپ کو کیا معلوم نہیں
آج تلک پھولوں کی مہک ہے شہرِ وفا کی گلیوں میں
کون آیا تھا پھول کھلانے آپ کو کیا معلوم نہیں
یاد کرو وہ عہدِ وفا جو باندھا تھا ہم نے بچپن میں
میں آیا ہوں اس کو نبھانے آپ کو کیا معلوم نہیں
کیسے جلی ہے دل کی بستی اور بجھی ہے میری ہستی
کون آیا تھا آگ لگانے آپ کو کیا معلوم نہیں
حشر کے دن ہم تم سے ملیں گے آپ نے یہ فرمایا تھا
میں آیا ہوں یاد دلانے آپ کو کیا معلوم نہیں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






