آپ کے شہر کی حالت نہیں دیکھی جاتی
ہر طرف خوف یہ دہشت نہیں دیکھی جاتی
جانے کس شخص کے بارے میں پریشان رہے
جب کہ خود اپنی اذیت نہیں دیکھی جاتی
دشمنی مول تو لے سکتے ہیں پل میں سب سے
اپنے ہی من میں کدورت نہیں دیکھی جاتی
تیرے ہی در پہ یوں بیٹھے ہیں کہ انصاف ملے
اپنے اشکوں کی عدالت نہیں دیکھی جاتی
گزرے ادوار کو مل جل کے یہاں دفن کریں
نسل نو میں تو جہالت نہیں دیکھی جاتی
اس قدر قحط ہے اس شہر میں سچائی کا
پیار کے ہاتھ میں دولت نہیں دیکھی جاتی
سب کے بس کا تو نہیں روگ یہ ہرگز وشمہ
اپنے چہرے پہ یوں وحشت نہیں دیکھی جاتی