عشق کا ہے سفر در پیش بس کافی ہے خیال خویش یہ دو طرفہ محبت ہی کا ثمرہ ہے لگی ہے ہائے سینے میں جو آگ پیش اب کہاں ممکن خیال خود اب تصور میں ہے تیری ذات پیش ہے سفر ایسا کہ کیا کہوں یاسر مقابل ہیں ہزاروں در اب پیش