آہ سے نکلتی ہر کیف آشنائی کو جاتی ہے
میرے گھر کی تاریکی روشنائی کو جاتی ہے
اِس مزاج کا کیا سرُور پوچھتے ہو جاناں
وہ تیری طبع ہے جو اپنائی تو جاتی ہے
مجھے روش رقیبوں میں کچھ ایسا لگا کہ
اُداسی کی یہ لہر بڑی لمبائی کو جاتی ہے
گمان غالب میں اب پھر کیا بیٹھ گیا
کہ ہر سوچ بس قیاس آرائی کو جاتی ہے
ان مُسرتوں کے تو ہر نیں میں جھانکا
وہاں سے تو ہر راہ بینائی کو جاتی ہے
اس جہاں سے وابستگی کٹنے کے بعد سنتوشؔ
میری ہر عبادت تصور الاہی کو جاتی ہے