آیا کوئی طوفان تو ڈر جائیں گے اک دن
جو بات کہی ہے وہ مکر جائیں گے اک دن
یہ زندگی لے جا رہی ہے موت کی جانب
وہ وقت ابھی دور نہیں مر جائیں گے اک دن
چھایا ہے اندھیرا مرے چاروِں ہی طرف سے
ہم وقت سے پہلے ہی گزر جائیں گے اک دن
قسمیں نہ وہ وعدے نہیں ہوں گے کبھی پورے
ہم ساتھ نہیں ہوں گے بچھڑ جائیں گے اک دن
کوئی بھی سہولت تو میسر ہی نہیں ہے
غربت کے سبب حد سے گزر جائیں گے اک دن
غربت ہے بہت جینا ہے دشوار سبھی کا
ناگفتہ ہیں حالات سنور جائیں گے اک دن
شہزاد لگاتار ہی مصروفِ سخن ہیں
کم ذات نہیں ہیں وہ سدھر جائیں گے اک دن