چل ہو کے محبت میں یک جان نکلتے ہیں
اب اپنے وطن سے ہم ایران نکلتے ہیں
تہران کے بارڈر سے لیتے ہیں کوئی کشتی
پھر اس کی رفاقت میں جاپان نکلتے ہیں
کشمیر کی وادی کے دیکھے ہیں کئی منظر
اب دل کی یہ خواہش ہے کاغان نکلتے ہیں
ہے دیس محبت کا ، خوشیوں کا جو گہوارہ
کچھ روز چلو مل کر عمان نکلتے ہیں
اب قطر کے آگے کیا لینا ہے تمہیں جا کر
واں بحر کے ساحل تک طوفان نکلتے ہیں
اے کاش مجھے وشمہ مل جائے وہ شہزادہ
ہم جس کی تمنا میں پرستان نکلتے ہیں