چاند کو چاندی سے پیار ہوتا ہے
کہ اب بھی تیرا انتظار ہوتا ہے
دعاؤں میں تیرا ہی نام ہوتا ہے
کہ اب بھی تیرا انتظار ہوتا ہے
پرندوں کو ہواؤں پے اعتبار ہوتا ہے
کہ اب بھی تیرا انتظار ہوتا ہے
شبنم کی بوندؤں کو پھولوں سے پیار ہوتا ہے
کہ اب بھی تیرا انتظار ہوتا ہے
ہواؤں کی سرگوشی میں تیرا احساس ہوتا ہے
کہ اب بھی تیرا انتظار ہوتا ہے
ساقی کے ہاتھ میں جام ہوتا ہے
کہ اب بھی تیرا انتظار ہوتا ہے
کنارے کو لہروں پے مان ہوتا ہے
کہ اب بھی تیرا انتظار ہوتا ہے
دل کی ہر دھڑکن میں تیرا نام ہوتا ہے
کہ اب بھی تیرا انتظار ہوتا ہے
مہندی سے ہی ہاتھ لال ہوتا ہے
کہ اب بھی تیرا انتظار ہوتا ہے
میرے شعروں کی تو ہی شان ہوتا ہے
کہ اب بھی تیرا انتظار ہوتا ہے
آنکھوں میں سجا اک ہی خواب ہوتا ہے
کہ اب بھی تیرا انتظار ہوتا ہے
دیے کو باندی پے ناز ہوتا ہے
کہ اب بھی تیرا انتظار ہوتا ہے
تیری یادوں میں پیار ہوتا ہے
کہ اب بھی تیرا انتظار ہوتا ہے
ہاتھوں میں لکیروں کا جال ہوتا ہے
کہ اب بھی تیرا انتظار ہوتا ہے
بارش میں روتا آسمان ہوتا ہے
کہ اب بھی تیرا انتظار ہوتا ہے