اب بھی عشق دسترس لے آئے گا
تو مجھے برباد ہونے سے کون بچائے گا
میری ابھلاشا کے آداب مضر رہے
کہ فطرت سے من بہل جائے گا
اس چمن میں خوشبوء مہکانے لیئے
سنا ہے آج کوئی اپنی ادا سے آئے گا
باہر ہے جلووں کے سوداگری
اے دل تو کس کس کو خدا بنائے گا
پتوں پہ شبنم کے قطرے نے گر کر کہا
کسی کی یاد کا تلاطم صَبا کو رلائے گا
مانا کہ وقت قسمت کا دھنی رہا ہے
تو پھر تقدیر کا فیصلہ کون سنائے گا
اک اُدھار کی زندگی جینے کے بعد سنتوشؔ
ہر شخص موت کے قابل ہو جائے گا