اُس بد گماں کو میں نے دیکھا ہے آزما کے
اب بھی ہیں میرے سر پہ الزام بے وفا کے
یہ پھول اور کلیاں، یہ نہریں ، یہ سمندر
بکھرے ہوئے ہیں ہر سو جلوے مرے خدا کے
مجھ پہ مرے خدا نے احسان یہ کیا ہے
عزّت ملی ہے مجھ کو شہرِ سخن میں آ کے
نظریں چرا کے تم نے سب کچھ بھلا دیا ہے
آئی تھی تجھ سے ملنے سب کشتیاں جلا کے
مانگا تھا میں نے رب سے اُس کو وہ جانتا ہے
رقصاں ہیں میرے لب پہ منظر ابھی دعا کے
میں کرچیاں سمیٹے بیٹھی رہوں گی کب تک
کب ختم ہوں گے موسم تجھ بن مری سزا کے
خوابوں میں میرے وشمہ مسند نشیں کبھی تھے
وہ لوگ میرے در سے گزرے ہیں سر جھکا کے