اب تو اس طرح میں خود ہی کو سزا دیتی ہوں
اب ترا نام میں لکھ لکھ کے مٹا دیتی ہوں
نام لیتے نہیں رکنے کا یہ آنسو میرے
تب تیرے نام کی محفل میں سجا دیتی ہوں
یہ الگ بات کہ پہنچی نہیں دل تک تیرے
میں کئ بار تجھے دل سے صدا دیتی ہوں
بس یہی سوچ کے ،تو گھر میں مرے آئے گا
روز وہلیز پہ میں پلکیں بچھا دیتی ہوں
فلسفہ کیا ہے محبت کا یہ جانا جب سے
تب سے پتھر کو بھی میں ہیرا بنا دیتی ہوں
مجھ سے سب پوچھے رہتے ہیں یہ اکثر فنکار
کیسے وشمہ کو میں فنکار ہ بنا دیتی ہوں