اب تو موسم ہیں یہاں سب ہی سزاؤں والے
جانے کس دیس گئے لوگ دعاؤں والے
ایک سیلاب سا گزرا تھا جفائیں لے کر
اور پھر ڈوب گئے شہر وفاؤں والے
تم تو اک حسن پہ نازاں ہو تمہیں کیا معلوم
تم نے دیکھے ہی نہیں لوگ اداؤں والے
ابر بھی ہو کے گریزاں ہی یہاں سے گزرا
جل گئے پیڑ مرے بخت کے ،چھاؤں والے
ایک بت ہے کہ جسے دل میں سجا رکھ ہے
جانے کس آگ میں جلتے ہیں خداؤں والے
کون اب درد کی جلتی ہوئی لُو روکے گا
زین آنچل بھی دریدہ ہیں، ہواؤں والے