کب کیسے چلا تھا کارواں
اب تو کچھ یاد بھی نہیں
وہ اجنبی بن کر آیا تھا مہرباں
اب تو کچھ یاد بھی نہیں
وہ الله الله کہنے والے
تسبی پکڑنے والے ہاتھ
دے رہے تھے مجھے دغا کیوں
اب تو کچھ یاد بھی نہیں
ُاس کی ہر چیز قبول کر لی میں
جس نے میری زندگی کو بنا دیا
فقط اک سگریٹ کا دھواں
اب تو کچھ یاد بھی نہیں
ہاں میں ذاتوں پر
یقین نہیں کرتی تھی
پر فطرت تھی ُاس کی توڑنا
سو توڑ دیے ُاس نے
میری وفاؤں کے سارے پیماں
اب تو کچھ یاد بھی نہیں
میری زندگی کا تماشا بنا کر
وہ معافی مانگ رہا تھا کس لیے
جس نے کچل دیے
اک پل میں میرے ارماں
اب تو کچھ یاد بھی نہی