کیا میں پچھتا یا ہوں
تیری قید میں جب سے آیا ہوں
ہزاروں ناز اٹھا کر بھی تیرے
بچھڑ جانے سے گھبرایا ہوں
تو الجھا جب سے دِل سے ہے
اس پل سے جی نا پایا ہوں
تو مجھ کو راہ میں چھوڑ نا دے
اب تیرا ہی سرمایہ ہوں
ہے مان جو خود پہ چھوڑ بھی دے
بت توڑ کے میں بھی آیا ہوں
تیرا حال بھی میرے جیسا ہے
میں تجھ کو بھی آزمایا ہوں