اب جاگتے رہنا بھی اک خواب لگتا ہے
سچ، سچ نہیں لگتا، سراب لگتا ہے
کیسے میں اسکو ایک غزل میں قید کروں
جو دیکھنے میں پوری کتاب لگتا ہے
جس دن دیکھتا ہوں اسکو کسی کے ساتھ
اس دن کا ہر لمحہ، عذاب لگتا ہے
پانے کی اسے جلدی نہ کرو ‘ذوالقرنین‘
ان کاموں میں وقت تو جناب لگتا ہے