اب جو اٹھتی نہیں نظر شاید
تیری یادوں کا ہے نگر شاید
جس کے چہرے پہ حادثہ ہے کوئی
اُس کو لگنے لگا ہے ڈر شاید
اب جو بیٹھی ہوں انجمن میں تری
اب نہ آئے گا میرا گھر شاید
اُس کی آنکھوں میں زندہ رہنے کا
اب ہے الزام میرے سر شاید
اُس نے غیروں سے بیت کر لی ہے
اُس کو میری نہیں خبر شاید
تیری میری چھپی ہے شہ سرخی
ایک اخبار میں خبر شاید
روز جس کے میں گیت گاتی ہوں
روز گھٹتی ہے یہ عمر شاید
ساتھ چھوڑا ہے آج وشمہ نے
میں بھی جاؤں گی آج مر شاید