اب جو اٹھتی نہیں نظر ہم سے
تیری یادوں کا ہے نگر ہم سے
جس کے چہرے پہ حادثہ ہے کوئی
اُس کو لگنے لگا ہے ڈر ہم سے
میرے رستے میں راستہ ہے ترا
اور دل میں ہے رہگزر ہم سے
اب جو بیٹھی ہوں انجمن میں تری
یا ملاقات کا ہے ڈر ہم سے
اُس کی آنکھوں میں زندہ رہنے کا
اب ہے الزام میرے سر ہم سے
اُس نے غیروں سے بیت کر لی ہے
اُس کو میری نہیں خبر ہم سے
تیری میری چھپی ہے شہ سرخی
ایک اخبار میں خبر ہم سے
روز جس کے میں گیت گاتی ہوں
روز گھٹتی ہے یہ عمر ہم سے
جس نے اڑنا مجھے سکھایا ہے
وہ نہ کاٹے گا میرے پر ہم سے
میں تو مقروض ہوں محبت کی
یہ نہ جائے گا دردِ سر ہم سے
ساتھ چھوڑا ہے آج وشمہ نے
وشمہ آئے گی لوٹ کر ہم سے