اب خود کو اس طرح سزا دیتا ہوں
خط پہ تیرا نام لکھ کے مٹا دیتا ہوں
میرے اشک جب رکنے کا نام نہیں لیتے
تیرے نام کی اک محفل سجا دیتا ہوں
یہ الگ بات کہ تیرے دل تک نہ پہنچی
دن میں کئی بار تجھ کو صدا دیتا ہوں
تو میرے گھر میں شاید کبھی آئے
میں ہر روز پلکیں بچھا دیتا ہوں
خواب میں بھی تجھے دیکھ نہ سکیں
یہ قید اپنی آنکھوں پہ لگا دیتا ہوں
جب سے جانا ہے محبت کا فلسفہ اصغر
تب سے پتھر کو ہیرا بنا دیتا ہوں